زخم دل کو تسلیاں دے دو
میرے پھولوں کو تتلیاں دے دو
سچ کو تم قتل کر نہ پاؤ گے
چاہے جتنی گواہیاں دے دو
چاند تارے شفق دھنک آکاش
ان دریچوں کو کنجیاں دے دو
غزلیں بے کیف ہو رہی ہیں مری
اپنے ہونٹوں کی سرخیاں دے دو
کیا کرو گے نشانیاں رکھ کر
ان ہواؤں کو چھٹیاں دے دو
ہچکیاں رات درد تنہائی
آ بھی جاؤ تسلیاں دے دو
زلف بھی ہے تمہارا ناصرؔ بھی
جو نہ حل ہوں پہیلیاں دے دو
غزل
زخم دل کو تسلیاں دے دو
ناصر جونپوری