EN हिंदी
تعمیر ہم نے کی تھی ہمیں نے گرا دیے | شیح شیری
tamir humne ki thi hamin ne gira diye

غزل

تعمیر ہم نے کی تھی ہمیں نے گرا دیے

نشتر خانقاہی

;

تعمیر ہم نے کی تھی ہمیں نے گرا دیے
شب کو محل بنائے سویرے گرا دیے

کمزور جو ہوئے ہوں وہ رشتے کسے عزیز
پیلے پڑے تو شاخ نے پتے گرا دیے

اب تک ہماری عمر کا بچپن نہیں گیا
گھر سے چلے تھے جیب کے پیسے گرا دیے

پتھر سے دل کی آگ سنبھالی نہیں گئی
پہنچی ذرا سی چوٹ پتنگے گرا دیے

برسوں ہوئے تھے جن کی تہیں کھولتے ہوئے
اپنی نظر سے ہم نے وہ چہرے گرا دیے

شہر طرب میں رات ہوا تیز تھی بہت
کاندھوں سے مہ وشوں کے دوپٹے گرا دیے

تاب نظر کو حوصلہ ملنا ہی تھا کبھی
کیوں تم نے احتیاط میں پردے گرا دیے