EN हिंदी
ہمرہی کی بات مت کر امتحاں ہو جائے گا | شیح شیری
ham-rahi ki baat mat kar imtihan ho jaega

غزل

ہمرہی کی بات مت کر امتحاں ہو جائے گا

نصیر ترابی

;

ہمرہی کی بات مت کر امتحاں ہو جائے گا
ہم سبک ہو جائیں گے تجھ کو گراں ہو جائے گا

جب بہار آ کر گزر جائے گی اے سرو بہار
ایک رنگ اپنا بھی پیوند خزاں ہو جائے گا

ساعت ترک تعلق بھی قریب آ ہی گئی
کیا یہ اپنا سب تعلق رائیگاں ہو جائے گا

یہ ہوا سارے چراغوں کو اڑا لے جائے گی
رات ڈھلنے تک یہاں سب کچھ دھواں ہو جائے گا

شاخ دل پھر سے ہری ہونے لگی دیکھو نصیرؔ
ایسا لگتا ہے کسی کا آشیاں ہو جائے گا