میں بند آنکھوں سے کب تلک یہ غبار دیکھوں
کوئی تو منظر سیاہ دریا کے پار دیکھوں
کبھی وہ عالم کہ اس طرف آنکھ ہی نہ اٹھے
کبھی یہ حالت کہ اس کو دیوانہ وار دیکھوں
یہ کیسا خوں ہے کہ بہہ رہا ہے نہ جم رہا ہے
یہ رنگ دیکھوں کہ دل جگر کا فشار دیکھوں
یہ ساری بے منظری سواد سکوت سے ہے
صدا وہ چمکے تو دھند کے آر پار دیکھوں
ترے سوا بھی ہزار منظر ہیں دیکھنے کو
تجھے نہ دیکھوں تو کیوں ترا انتظار دیکھوں
غزل
میں بند آنکھوں سے کب تلک یہ غبار دیکھوں
احمد محفوظ