EN हिंदी
وہ اک سوال ستارہ کہ آسمان میں تھا | شیح شیری
wo ek sawal-e-sitara ki aasman mein tha

غزل

وہ اک سوال ستارہ کہ آسمان میں تھا

احمد محفوظ

;

وہ اک سوال ستارہ کہ آسمان میں تھا
تمام رات یہ دل سخت امتحان میں تھا

سکوں سراب زمیں میں جھلس گیا تھا بدن
نہ جانے کون دھنک رنگ سائبان میں تھا

ذرا سا دم نہ لیا تھا کہ مند گئیں آنکھیں
میں اس سفر سے نکل کر عجب تکان میں تھا

وہ جاتے جاتے اچانک مڑا تھا میری طرف
مجھے یقیں ہے کہ وہ پھر کسی گمان میں تھا

اسے بھلایا تو اپنا خیال بھی نہ رہا
کہ میرا سارا اثاثہ اسی مکان میں تھا