دل کی خلش تو ساتھ رہے گی تمام عمر
دریائے غم کے پار اتر جائیں ہم تو کیا
منیر نیازی
دن بھر جو سورج کے ڈر سے گلیوں میں چھپ رہتے ہیں
شام آتے ہی آنکھوں میں وہ رنگ پرانے آ جاتے ہیں
منیر نیازی
ڈوب چلا ہے زہر میں اس کی آنکھوں کا ہر روپ
دیواروں پر پھیل رہی ہے پھیکی پھیکی دھوپ
منیر نیازی
ایک دشت لا مکاں پھیلا ہے میرے ہر طرف
دشت سے نکلوں تو جا کر کن ٹھکانوں میں رہوں
منیر نیازی
ایک وارث ہمیشہ ہوتا ہے
تخت خالی رہا نہیں کرتا
منیر نیازی
غیر سے نفعت جو پا لی خرچ خود پر ہو گئی
جتنے ہم تھے ہم نے خود کو اس سے آدھا کر لیا
منیر نیازی
غیر سے نفرت جو پا لی خرچ خود پر ہو گئی
جتنے ہم تھے ہم نے خود کو اس سے آدھا کر لیا
منیر نیازی

