اگا سبزہ در و دیوار پر آہستہ آہستہ
ہوا خالی صداؤں سے نگر آہستہ آہستہ
گھرا بادل خموشی سے خزاں آثار باغوں پر
ہلے ٹھنڈی ہواؤں میں شجر آہستہ آہستہ
بہت ہی سست تھا منظر لہو کے رنگ لانے کا
نشاں آخر ہوا یہ سرخ تر آہستہ آہستہ
چمک زر کی اسے آخر مکان خاک میں لائی
بنایا سانپ نے جسموں میں گھر آہستہ آہستہ
مرے باہر فصیلیں تھیں غبار خاک و باراں کی
ملی مجھ کو ترے غم کی خبر آہستہ آہستہ
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
غزل
اگا سبزہ در و دیوار پر آہستہ آہستہ
منیر نیازی