پھول جب کوئی بکھرتا ہے تو ہنس دیتے ہیں
درد جب حد سے گزرتا ہے تو ہنس دیتے ہیں
پردۂ ذہن پہ ماضی کے جھروکوں سے کبھی
ایک چہرہ سا ابھرتا ہے تو ہنس دیتے ہیں
صبح تک جلنا پگھلنا ہے ہماری قسمت
رنگ شب یوں جو نکھرتا ہے تو ہنس دیتے ہیں
آگہی بھولنے دیتی نہیں ہستی کا مآل
ٹوٹ کے خواب بکھرتا ہے تو ہنس دیتے ہیں
زندگی جہد مسلسل ہے ہراساں کیوں ہو
ولولہ جب کوئی مرتا ہے تو ہنس دیتے ہیں
غزل
پھول جب کوئی بکھرتا ہے تو ہنس دیتے ہیں
ممتاز میرزا