میلے میں گر نظر نہ آتا روپ کسی متوالی کا
پھیکا پھیکا رہ جاتا تہوار بھی اس دیوالی کا
مایوں بیٹھے روپ سروپ کے روگ سے واقف لگتی ہے
آنچل بھیگا جاتا ہے اس دولہن کی شہبالی کا
برتن برتن چیخ رہی تھی کون سمجھتا اس کی بات
دل کا برتن خالی تھا اس برتن بیچنے والی کا
گال کی جانب جھکتی ہے شرماتی ہے ہٹ جاتی ہے
آج ارادہ ٹھیک نہیں ہے جان تمہاری بالی کا
شہزادے تلوار تھما دے اب دربان کے ہاتھوں میں
کہہ دے خالی ہاتھ نہ جائے اب کے بار سوالی کا
پھر ممتازؔ کسی کی یادیں کونجیں بن کر لوٹیں گی
موسم آنے والا ہے پھر زخموں کی ہریالی کا
غزل
میلے میں گر نظر نہ آتا روپ کسی متوالی کا
ممتاز گورمانی