جبیں پر خاک ہے یہ کس کے در کی
بلائیں لے رہا ہوں اپنے سر کی
ابھر آئی ہیں پھر چوٹیں جگر کی
سلامت برچھیاں ترچھی نظر کی
قیامت کی حقیقت جانتا ہوں
یہ اک ٹھوکر ہے میرے فتنہ گر کی
کیا مجبور آئین وفا نے
نہ کرنی تھی وفا تم سے مگر کی
نہ مانو گے نہ مانو گے ہماری
ادھر ہو جائے گی دنیا ادھر کی
ہوئی ان بن کسی سے مجھ پہ برسے
بلائیں میرے سر دشمن کے سر کی
نہ تیرے حسن بے پروا کی غایت
نہ کوئی حد مرے ذوق نظر کی
غزل
جبیں پر خاک ہے یہ کس کے در کی
مبارک عظیم آبادی