کینہ جو ترے دل میں بھرا ہے سو کدھر جائے
ممکن ہے کہیں سنگ کے پہلو سے شرر جائے
تڑپوں ہوں تماشے کو مرے ہٹ کے کھڑا ہو
دامن کو سنبھال اپنے مرے خوں سے نہ بھر جائے
کہتا ہے کوئی برق کوئی شعلۂ آتش
اک دم تو ٹھہر جائے تو اک بات ٹھہر جائے
مت منہ سے نثارؔ اپنے کو اے جان برا کہہ
ہے صاحب غیرت کہیں کچھ کھا کے نہ مر جائے
غزل
کینہ جو ترے دل میں بھرا ہے سو کدھر جائے
محمد امان نثار