EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کیا کہوں تجھ سے محبت وہ بلا ہے ہمدم
مجھ کو عبرت نہ ہوئی غیر کے مر جانے سے

مرزا ہادی رسوا




لب پہ کچھ بات آئی جاتی ہے
خامشی مسکرائی جاتی ہے

مرزا ہادی رسوا




مرنے کے دن قریب ہیں شاید کہ اے حیات
تجھ سے طبیعت اپنی بہت سیر ہو گئی

مرزا ہادی رسوا




ٹلنا تھا میرے پاس سے اے کاہلی تجھے
کمبخت تو تو آ کے یہیں ڈھیر ہو گئی

مرزا ہادی رسوا




انہیں کا نام لے لے کر کوئی فرقت میں مرتا ہے
کبھی وہ بھی تو سن لیں گے جو بدنامی سے ڈرتے ہیں

مرزا ہادی رسوا




یہ فقط آپ کی عنایت ہے
ورنہ میں کیا مری حقیقت کیا

مرزا ہادی رسوا




نمی سی تھی دم رخصت کچھ ان کے آنچل پر
وہ اشک تھے کہ پسینہ میں سوچتا ہی رہا

مرزا محمود سرحدی