EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

دلی چھٹی تھی پہلے اب لکھنؤ بھی چھوڑیں
دو شہر تھے یہ اپنے دونوں تباہ نکلے

مرزا ہادی رسوا




دبکی ہوئی تھی گربہ صفت خواہش گناہ
چمکارنے سے پھول گئی شعر ہو گئی

مرزا ہادی رسوا




ہنس کے کہتا ہے مصور سے وہ غارت گر ہوش
جیسی صورت ہے مری ویسی ہی تصویر بھی ہو

مرزا ہادی رسوا




ہے یقیں وہ نہ آئیں گے پھر بھی
کب نگہ سوئے در نہیں ہوتی

مرزا ہادی رسوا




ہم کو بھی کیا کیا مزے کی داستانیں یاد تھیں
لیکن اب تمہید ذکر درد و ماتم ہو گئیں

مرزا ہادی رسوا




ہم نشیں دیکھی نحوست داستان ہجر کی
صحبتیں جمنے نہ پائی تھیں کہ برہم ہو گئیں

مرزا ہادی رسوا




کس قدر معتقد حسن مکافات ہوں میں
دل میں خوش ہوتا ہوں جب رنج سوا ہوتا ہے

مرزا ہادی رسوا