پکارنے کا قرینہ میں سوچتا ہی رہا
حسیں کہوں کہ حسینہ میں سوچتا ہی رہا
نمی سی تھی دم رخصت کچھ ان کے آنچل پر
وہ اشک تھے کہ پسینہ میں سوچتا ہی رہا
ترے کرم کی کوئی حد نہیں حساب نہیں
چبا کے نان شبینہ میں سوچتا ہی رہا
ادھر وہ پہلی کو آئے تھے ایک پل کے لیے
ادھر تمام مہینہ میں سوچتا ہی رہا
غزل
پکارنے کا قرینہ میں سوچتا ہی رہا
مرزا محمود سرحدی