EN हिंदी
پکارنے کا قرینہ میں سوچتا ہی رہا | شیح شیری
pukarne ka qarina main sochta hi raha

غزل

پکارنے کا قرینہ میں سوچتا ہی رہا

مرزا محمود سرحدی

;

پکارنے کا قرینہ میں سوچتا ہی رہا
حسیں کہوں کہ حسینہ میں سوچتا ہی رہا

نمی سی تھی دم رخصت کچھ ان کے آنچل پر
وہ اشک تھے کہ پسینہ میں سوچتا ہی رہا

ترے کرم کی کوئی حد نہیں حساب نہیں
چبا کے نان شبینہ میں سوچتا ہی رہا

ادھر وہ پہلی کو آئے تھے ایک پل کے لیے
ادھر تمام مہینہ میں سوچتا ہی رہا