EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کام تھے عشق میں بہت پر میرؔ
ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے

میر تقی میر




کاسۂ چشم لے کے جوں نرگس
ہم نے دیدار کی گدائی کی

میر تقی میر




کہا میں نے گل کا ہے کتنا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا

میر تقی میر




کہتے تو ہو یوں کہتے یوں کہتے جو وہ آتا
یہ کہنے کی باتیں ہیں کچھ بھی نہ کہا جاتا

میر تقی میر




کون کہتا ہے نہ غیروں پہ تم امداد کرو
ہم فراموشیوں کو بھی کبھو یاد کرو

میر تقی میر




کون لیتا تھا نام مجنوں کا
جب کہ عہد جنوں ہمارا تھا

میر تقی میر




خراب رہتے تھے مسجد کے آگے مے خانے
نگاہ مست نے ساقی کی انتقام لیا

میر تقی میر