EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے

میر تقی میر




خدا کو کام تو سونپے ہیں میں نے سب لیکن
رہے ہے خوف مجھے واں کی بے نیازی کا

میر تقی میر




کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

میر تقی میر




کسو سے دل نہیں ملتا ہے یا رب
ہوا تھا کس گھڑی ان سے جدا میں

میر تقی میر




کتنی باتیں بنا کے لاؤں لیک
یاد رہتیں ترے حضور نہیں

میر تقی میر




کوئی تم سا بھی کاش تم کو ملے
مدعا ہم کو انتقام سے ہے

میر تقی میر




کوہ کن کیا پہاڑ توڑے گا
عشق نے زور آزمائی کی

میر تقی میر