EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

لگا نہ دل کو کہیں کیا سنا نہیں تو نے
جو کچھ کہ میرؔ کا اس عاشقی نے حال کیا

میر تقی میر




لیتے ہی نام اس کا سوتے سے چونک اٹھے
ہے خیر میرؔ صاحب کچھ تم نے خواب دیکھا

میر تقی میر




لکھتے رقعہ لکھے گئے دفتر
شوق نے بات کیا بڑھائی ہے

میر تقی میر




معرکہ گرم تو ہو لینے دو خوں ریزی کا
پہلے شمشیر کے نیچے ہمیں جا بیٹھیں گے

میر تقی میر




میں جو بولا کہا کہ یہ آواز
اسی خانہ خراب کی سی ہے

میر تقی میر




مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر

میر تقی میر




مرثیے دل کے کئی کہہ کے دئیے لوگوں کو
شہر دلی میں ہے سب پاس نشانی اس کی

میر تقی میر