EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہم آپ ہی کو اپنا مقصود جانتے ہیں
اپنے سوائے کس کو موجود جانتے ہیں

میر تقی میر




ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا

میر تقی میر




ہم نے جانا تھا لکھے گا تو کوئی حرف اے میرؔ
پر ترا نامہ تو اک شوق کا دفتر نکلا

میر تقی میر




ہم طور‌ عشق سے تو واقف نہیں ہیں لیکن
سینے میں جیسے کوئی دل کو ملا کرے ہے

میر تقی میر




ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا

میر تقی میر




ہر قدم پر تھی اس کی منزل لیک
سر سے سودائے جستجو نہ گیا

میر تقی میر




ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے

میر تقی میر