EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اب دیکھ لے کہ سینہ بھی تازہ ہوا ہے چاک
پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا

میر تقی میر




اب جو اک حسرت جوانی ہے
عمر رفتہ کی یہ نشانی ہے

میر تقی میر




اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے
پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے

میر تقی میر




اب مجھ ضعیف و زار کو مت کچھ کہا کرو
جاتی نہیں ہے مجھ سے کسو کی اٹھائی بات

میر تقی میر




اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ
پھر ملیں گے اگر خدا لایا

میر تقی میر




عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا

میر تقی میر




امیر زادوں سے دلی کے مل نہ تا مقدور
کہ ہم فقیر ہوئے ہیں انہیں کی دولت سے

میر تقی میر