تم مل گئے تو کوئی گلہ اب نہیں رہا
میں اپنی زندگی سے خفا اب نہیں رہا
پہلے مری نگاہ میں دنیا حقیر تھی
میں اپنے ساتھیوں سے جدا اب نہیں رہا
اب بھی اسی درخت کے نیچے ملیں گے ہم
سایہ اگرچہ اس کا گھنا اب نہیں رہا
تیرے قدم نے جان کہانی میں ڈال دی
قصہ ہمارا بے سر و پا اب نہیں رہا
اب میری اپنے آخری دشمن سے جنگ ہے
میداں میں کوئی میرے سوا اب نہیں رہا
ہم کو اسی دیار کی مٹی ہوئی عزیز
نقشے میں جس کا نام پتہ اب نہیں رہا
غزل
تم مل گئے تو کوئی گلہ اب نہیں رہا
مدحت الاختر