جانے والے مجھے کچھ اپنی نشانی دے جا
روح پیاسی نہ رہے آنکھ میں پانی دے جا
وقت کے ساتھ خد و خال بدل جاتے ہیں
جو نہ بدلے وہی تصویر پرانی دے جا
ترے ماتھے پہ مرا نام چمکتا تھا کبھی
ان دنوں کی کوئی پہچان پرانی دے جا
جس کی آغوش میں کٹ جائیں ہزاروں راتیں
میری تنہائی کو چھو کر وہ کہانی دے جا
رکھ نہ محروم خود اپنی ہی رفاقت سے مجھے
آئنہ مجھ کو دکھا دے مرا ثانی دے جا
غزل
جانے والے مجھے کچھ اپنی نشانی دے جا
مدحت الاختر