میں دھند فضاؤں میں اڑا بھی ہوں گرا بھی
تھی قوت پرواز بھی اور خوف قضا بھی
میں اپنے ہی زندان طلسمی کا زبوں تھا
ہر چند تری شعبدہ کاری سے بچا بھی
لائی ہے کہاں مجھ کو طبیعت کی دو رنگی
دنیا کا طلب گار بھی دنیا سے خفا بھی
پا بستۂ زنجیر ہوا چھوٹ گئے ہیں
موقوف ہوا سلسلۂ قتل نوا بھی
خوابیدہ لہو بازوئے پرواز میں جاگا
روشن ہوئی دھندلائی ہوئی زرد فضا بھی
آنکھیں ہیں مگر خواب سے محروم ہیں مدحتؔ
تصویر کا رشتہ نہیں رنگوں سے ذرا بھی
غزل
میں دھند فضاؤں میں اڑا بھی ہوں گرا بھی
مدحت الاختر