EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

جس کا تجھ سا حبیب ہووے گا
کون اس کا رقیب ہووے گا

میر سوز




پرکار کی روش پھرے ہم جتنے چل سکے
اس گردش فلک سے نہ باہر نکل سکے

میر سوز




رسوا ہوا خراب ہوا مبتلا ہوا
وہ کون سی گھڑی تھی کہ تجھ سے جدا ہوا

میر سوز




سر زانو پہ ہو اس کے اور جان نکل جائے
مرنا تو مسلم ہے ارمان نکل جائے

میر سوز




ان سے اور مجھ سے یہی شرط وفا ٹھہری ہے
وہ ستم ڈھائیں مگر ان کو ستمگر نہ کہوں

میر سوز




اے ضبط ایک تھوڑی سی باقی تھی آبرو
رونے نے رات دن کے مٹا دی رہی سہی

میر طاہر علی طاہر فرخ آبادی




بھول کر بھی کبھی نہ یاد کیا
ہم ترے جی سے ایسے بھول گئے

میرضیا الدین ضیا