روزی رساں خدا ہے فکر معاش مت کر
اس خار کا تو دل میں خوف خراش مت کر
میر محمدی بیدار
سایہ سے اپنے وحشت کرتے ہیں مثل آہو
مشکل ہے ہاتھ لگنا از خود رمیدکاں کا
میر محمدی بیدار
سب لٹا عشق کے میدان میں عریاں آیا
رہ گیا پاس مرے دامن صحرا باقی
میر محمدی بیدار
شراب و ساقیٔ مہ رو جو ساتھ ہوں بیدارؔ
تو خوش نما ہے شب ماہتاب میں دریا
میر محمدی بیدار
تیغ بر دوش سپر ہاتھ میں دامن کرداں
یہ بنا صورت خونخوار کہاں جاتا ہے
میر محمدی بیدار
ٹک اے بت اپنے مکھڑے سے اٹھا دے گوشۂ برقع
کہ ان مسجد نشینوں کو ہے دعویٰ دین داری کا
میر محمدی بیدار
یاد کرتے ہیں تجھے دیر و حرم میں شب و روز
اہل تسبیح جدا صاحب زنار جدا
میر محمدی بیدار

