EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

یہ بھی آنا ہے کوئی اس سے نہ آنا بہتر
آئے دم بھی نہ ہوا کہتے ہو جاؤں جاؤں

میر محمدی بیدار




نزع میں گر مری بالیں پہ تو آیا ہوتا
اس طرح اشک میں آنکھوں میں نہ لایا ہوتا

میر مستحسن خلیق




مثل آئینہ ہے اس رشک قمر کا پہلو
صاف ادھر سے نظر آتا ہے ادھر کا پہلو

میر مستحسن خلیق




سر جھکا لیتا ہے لالہ شرم سے
جب جگر کے داغ دکھلاتے ہیں ہم

میر مستحسن خلیق




یاد جاناں اتر کے آئی ہے
شب کے زینے سے چاندنی کی طرح

میر نقی علی خاں ثاقب




اہل ایماں سوزؔ کو کہتے ہیں کافر ہو گیا
آہ یا رب راز دل ان پر بھی ظاہر ہو گیا

میر سوز




ایک آفت سے تو مر مر کے ہوا تھا جینا
پڑ گئی اور یہ کیسی مرے اللہ نئی

میر سوز