EN हिंदी
شب کو تم ہم سے خفا ہو کر سحر کو اٹھ گئے | شیح شیری
shab ko tum humse KHafa ho kar sahar ko uTh gae

غزل

شب کو تم ہم سے خفا ہو کر سحر کو اٹھ گئے

میر حسن

;

شب کو تم ہم سے خفا ہو کر سحر کو اٹھ گئے
شمع ساں رو رو کے ہم بھی دل جگر کو اٹھ گئے

تھے ابھی تو پاس ہی اپنے قرار و ہوش و صبر
تیرے آتے ہی نہ جانے وہ کدھر کو اٹھ گئے

تو نہ نکلا گھر سے باہر صبح سے لے شام تک
دیکھ دیکھ آخر ترے دیوار و در کو اٹھ گئے

کس سے پوچھوں حال میں باشندگان دل کا ہائے
اس نگر کے رہنے والے کس نگر کو اٹھ گئے

اے خوشا وے جو کہ وارستہ تعلق سے ہوئے
جس جگہ چاہا رہے چاہا جدھر کو اٹھ گئے

دیر و کعبہ ہی کو جانا کچھ نہیں لازم غرض
جس طرف پائی خبر اس کی ادھر کو اٹھ گئے

شہر میں رونے کے ہاتھوں جب نہ رہنے پائے ہم
کوہ و صحرا کی طرف لے چشم تر کو اٹھ گئے

پوچھتا ہے حال کیا آوارگان ہند کا
کچھ ادھر کو اٹھ گئے اور کچھ ادھر کو اٹھ گئے

تو اکیلا اس جگہ بیٹھا کرے گا کیا حسنؔ
تیرے ساتھی تو کبھی کے اپنے گھر کو اٹھ گئے