رموز عشق و محبت سے آشنا ہوں میں
کسی کو غمزدہ دیکھا تو رو دیا ہوں میں
متین نیازی
تری سمجھ میں نہ آ سکے گی کسی کے اشکوں کی قدر و قیمت
ابھی ہے ناآشنائے غم تو ابھی ترا دل دکھا نہیں ہے
متین نیازی
طوفاں سے بچ کے ڈوبی ہے کشتی کہاں نہ پوچھ
ساحل بھی اعتبار کے قابل نہیں رہا
متین نیازی
یہی آئنہ ہے وہ آئینہ جو لئے ہے جلوۂ آگہی
یہ جو شاعری کا شعور ہے یہ پیمبری کی تلاش ہے
متین نیازی
یہ زندگی جسے اپنا سمجھ رہے ہیں سب
ہے مستعار فقط رونق جہاں کے لیے
متین نیازی
زندگی کی بھی یقیناً کوئی منزل ہوگی
یہ سفر ہی کی طرح ایک سفر ہے کہ نہیں
متین نیازی
کلیوں کو کھل کے ہنسنے کا انداز آ گیا
گلشن میں آ کے تم جو ذرا مسکرا گئے
مائل خیرآبادی

