خلوص تعمیر ہو جو شامل ستم کا جذبہ برا نہیں ہے
وفا کریں گے وہ کیا کسی سے جنہیں شعور جفا نہیں ہے
تری سمجھ میں نہ آ سکے گی کسی کے اشکوں کی قدر و قیمت
ابھی ہے ناآشنائے غم تو ابھی ترا دل دکھا نہیں ہے
وفا کی عظمت سے آشنا ہیں کہیں تو روداد غم کہیں کیا
تجھے ندامت ہو جس کو سن کر وہ داستان وفا نہیں ہے
خدا نہ کردہ تمہارے دل کو کوئی دکھائے تو کیا کرو گے
نگاہیں تم نے تو ایسی پھیریں کہ جیسے میرا خدا نہیں ہے
وہ کھویا کھویا سا ان کا عالم لبوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ
ادا یہ ان کی متینؔ جیسے سنا بھی ہے اور سنا نہیں ہے
غزل
خلوص تعمیر ہو جو شامل ستم کا جذبہ برا نہیں ہے
متین نیازی