دنیا میں ہم جو اپنی حقیقت کو پا گئے
تو زندگی کے راز سمجھ میں سب آ گئے
یہ سوچتے ہیں صرف یہی سوچتے ہیں اب
ہم تیرے در پہ لائے گئے ہیں کہ آ گئے
کلیوں کو کھل کے ہنسنے کا انداز آ گیا
گلشن میں آ کے تم جو ذرا مسکرا گئے
اپنا مقام بھی متعین نہ کر سکے
وہ کیا کہیں گے دہر میں کیا آئے کیا گئے
زیبا تھا ان کو دعوئے تعمیر گلستاں
جو بجلیوں میں رہ کے نشیمن بنا گئے
اک ہم ہیں راہ ڈھونڈ رہے ہیں ادھر ادھر
اک وہ ہیں خوش نصیب جو منزل کو پا گئے
راہ وفا میں آئے ہیں وہ مرحلے جہاں
مائلؔ بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا گئے
غزل
دنیا میں ہم جو اپنی حقیقت کو پا گئے
مائل خیرآبادی