اگر پھر شہر میں وہ خوش ادا واپس پلٹ آئے
ملاقاتوں کا شاید سلسلہ واپس پلٹ آئے
میں اس کو بھول جاؤں رات یہ مانگی دعا میں نے
کروں کیا میں اگر میری دعا واپس پلٹ آئے
گزرتا ہی نہیں موسم جدائی کے دیاروں کا
ملن رت کے کناروں سے ہوا واپس پلٹ آئے
وہ اب ان راستوں پر ہے جہاں بس پھول کھلتے ہیں
بلاوے کی مرے ہر اک صدا واپس پلٹ آئے
نئے رستے مبارک اس کو لیکن کچھ قدم بڑھ کر
بچھڑنے کا مجھے دے حوصلہ واپس پلٹ آئے
غزل
اگر پھر شہر میں وہ خوش ادا واپس پلٹ آئے
مرغوب علی