ہم تو گم ہو گئے حالات کے سناٹے میں
ہم نے کچھ بھی نہ سنا رات کے سناٹے میں
حرف ناکام جہاں ہوتے ہیں ان لمحوں میں
پھول کھلتے ہیں بہت بات کے سناٹے میں
شور ہنگامہ صدا طبل و علم نقارے
ڈوب جاتے ہیں سبھی مات کے سناٹے میں
رات پڑتے ہی ہر اک روز ابھر آتی ہے
کس کے رونے کی صدا ذات کے سناٹے میں
ذہن میں پھولوں کی مانند کھلا کرتے ہیں
ہم نے وہ پل جو چنے ساتھ کے سناٹے میں
غزل
ہم تو گم ہو گئے حالات کے سناٹے میں
مرغوب علی