کچے رنگ اتر جائیں تو سب کچھ یوں ہی لگتا ہے
سارے خواب بکھر جائیں تو سب کچھ یوں ہی لگتا ہے
ریت کا ڈھیر نظر آتے ہیں شہر کے سارے پختہ گھر
چیخوں سے دل ڈر جائیں تو سب کچھ یوں ہی لگتا ہے
تلووں میں سینے کی دھڑکن ہونٹوں پر مدت کی پیاس
جب ہم ''جان نگر'' جائیں تو سب کچھ یوں ہی لگتا ہے
بھیگے بھیگے چاند ستارے شبنم رت نیلا آکاش
اس کے بال سنور جائیں تو سب کچھ یوں ہی لگتا ہے
کرسی میز کتابیں؟ بستر انجانے سے تکتے ہیں
دیر سے اپنے گھر جائیں تو سب کچھ یوں ہی لگتا ہے
ٹوٹی کشتی دور کنارا ذہن میں کچھ گزرے قصے
ہم جب بیچ بھنور جائیں تو سب کچھ یوں ہی لگتا ہے
غزل
کچے رنگ اتر جائیں تو سب کچھ یوں ہی لگتا ہے
مرغوب علی