اب راہ وفا کے پتھر کو ہم پھول نہیں سمجھیں گے کبھی
پہلے ہی قدم پر ٹھیس لگی دل ٹوٹ گیا اچھا ہی ہوا
منظر سلیم
دہشت کھلی فضا کی قیامت سے کم نہ تھی
گرتے ہوئے مکانوں میں آ بیٹھے یار لوگ
منظر سلیم
سورج چڑھا تو پگھلی بہت چوٹیوں کی برف
آندھی چلی تو اکھڑے بہت سایہ دار لوگ
منظر سلیم
ایسا دلکش تھا کہ تھی موت بھی منظور ہمیں
ہم نے جس جرم کی کاٹی ہے سزا زنداں میں
منظور عارف
بات تیری سنی نہیں میں نے
دھیان میرا تری نظر پر تھا
منظور عارف
ہر شے لمحے کی مہماں ہے کیا گل کیا خوشبو
کیا مے کیا نشۂ آئینہ کیا آئینہ رو
منظور عارف
وہ کیا گیا کہ ہر اک شخص رہ گیا تنہا
اسی کے دم سے تھیں باہم رفاقتیں ساری
منظور عارف

