EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اب راہ وفا کے پتھر کو ہم پھول نہیں سمجھیں گے کبھی
پہلے ہی قدم پر ٹھیس لگی دل ٹوٹ گیا اچھا ہی ہوا

منظر سلیم




دہشت کھلی فضا کی قیامت سے کم نہ تھی
گرتے ہوئے مکانوں میں آ بیٹھے یار لوگ

منظر سلیم




سورج چڑھا تو پگھلی بہت چوٹیوں کی برف
آندھی چلی تو اکھڑے بہت سایہ دار لوگ

منظر سلیم




ایسا دلکش تھا کہ تھی موت بھی منظور ہمیں
ہم نے جس جرم کی کاٹی ہے سزا زنداں میں

منظور عارف




بات تیری سنی نہیں میں نے
دھیان میرا تری نظر پر تھا

منظور عارف




ہر شے لمحے کی مہماں ہے کیا گل کیا خوشبو
کیا مے کیا نشۂ آئینہ کیا آئینہ رو

منظور عارف




وہ کیا گیا کہ ہر اک شخص رہ گیا تنہا
اسی کے دم سے تھیں باہم رفاقتیں ساری

منظور عارف