EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اسی امید پہ برسیں گزار دیں ہم نے
وہ کہہ گیا تھا کہ موسم پلٹ کے آتے ہیں

منظور ہاشمی




جتنے اس کے فراق میں گزرے
دن وہ شامل کہاں ہیں جینے میں

منظور ہاشمی




جو اپنی نیند کی پونجی بھی کب کی کھو چکی ہیں
انہیں آنکھوں میں ہم اک خواب رکھنا چاہتے ہیں

منظور ہاشمی




کبھی کبھی تو کسی اجنبی کے ملنے پر
بہت پرانا کوئی سلسلہ نکلتا ہے

منظور ہاشمی




کوئی مکیں تھا نہ مہمان آنے والا تھا
تو پھر کواڑ کھلا کس کے انتظار میں تھا

منظور ہاشمی




کچھ اب کے دھوپ کا ایسا مزاج بگڑا ہے
درخت بھی تو یہاں سائبان مانگتے ہیں

منظور ہاشمی




لکھے تھے سفر پاؤں میں کس طرح ٹھہرتے
اور یہ بھی کہ تم نے تو پکارا ہی نہیں تھا

منظور ہاشمی