مری غزل میں تھیں اس کی نزاکتیں ساری
اسی کے روئے حسیں کی صباحتیں ساری
وہ بولتا تھا تو ہر اک تھا گوش بر آواز
وہ چپ ہوا تو ہیں بہری سماعتیں ساری
وہ کیا گیا کہ ہر اک شخص رہ گیا تنہا
اسی کے دم سے تھیں باہم رفاقتیں ساری
ڈبو گیا وہ مرا لفظ لفظ دریا میں
وہ غرق کر گیا میری علامتیں ساری
وہ ایک لمحہ سر دار جو چمک اٹھا
اس ایک لمحے پہ قربان ساعتیں ساری
جہاں پہ دفن ہے اس کے بدن کا تاج محل
ادھر دریچے رکھیں گی عمارتیں ساری
غزل
مری غزل میں تھیں اس کی نزاکتیں ساری
منظور عارف