کبھی تو سوچ ترے سامنے نہیں گزرے
وہ سب سمے جو ترے دھیان سے نہیں گزرے
یہ اور بات کہ ہوں ان کے درمیاں میں بھی
یہ واقعے کسی تقریب سے نہیں گزرے
ان آئنوں میں جلے ہیں ہزار عکس عدم
دوام درد ترے رت جگے نہیں گزرے
سپردگی میں بھی اک رمز خود نگہ داری
وہ میرے دل سے مرے واسطے نہیں گزرے
بکھرتی لہروں کے ساتھ ان دنوں کے تنکے بھی تھے
جو دل میں بہتے ہوئے رک گئے نہیں گزرے
انہیں حقیقت دریا کی کیا خبر امجدؔ
جو اپنی روح کی منجدھار سے نہیں گزرے
غزل
کبھی تو سوچ ترے سامنے نہیں گزرے
مجید امجد