چاندنی میں سایہ ہائے کاخ و کو میں گھومیے
پھر کسی کو چاہنے کی آرزو میں گھومیے
شاید اک بھولی تمنا مٹتے مٹتے جی اٹھے
اور بھی اس جلوہ زار رنگ و بو میں گھومیے
روح کے دربستہ سناٹوں کو لے کر اپنے ساتھ
ہمہماتی محفلوں کی ہاؤ ہو میں گھومیے
کیا خبر کس موڑ پر مہجور یادیں آ ملیں
گھومتی راہوں پہ گرد آرزو میں گھومیے
زندگی کی راحتیں ملتی نہیں ملتی نہیں
زندگی کا زہر پی کر جستجو میں گھومیے
کنج دوراں کو نئے اک زاویے سے دیکھیے
جن خلاؤں میں نرالے چاند گھومیں گھومیے
غزل
چاندنی میں سایہ ہائے کاخ و کو میں گھومیے
مجید امجد