EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہر وقت فکر مرگ غریبانہ چاہئے
صحت کا ایک پہلو مریضانہ چاہئے

مجید امجد




اس جلتی دھوپ میں یہ گھنے سایہ دار پیڑ
میں اپنی زندگی انہیں دے دوں جو بن پڑے

مجید امجد




جب انجمن توجہ صد گفتگو میں ہو
میری طرف بھی اک نگہ کم سخن پڑے

مجید امجد




کیا روپ دوستی کا کیا رنگ دشمنی کا
کوئی نہیں جہاں میں کوئی نہیں کسی کا

مجید امجد




میں ایک پل کے رنج فراواں میں کھو گیا
مرجھا گئے زمانے مرے انتظار میں

مجید امجد




میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا

مجید امجد




میری مانند خود نگر تنہا
یہ صراحی میں پھول نرگس کا

مجید امجد