جب اک چراغ راہ گزر کی کرن پڑے
ہونٹوں کی لو لطیف حجابوں سے چھن پڑے
شاخ ابد سے جھڑتے زمانوں کا روپ ہے
یہ لوگ جن کے رخ پہ گمان چمن پڑے
یہ کس حسیں دیار کی ٹھنڈی ہوا چلی
ہر موجۂ خیال پہ صد ہا شکن پڑے
یہ کون ہے لبوں میں رسیلی رتیں گھلیں
پلکوں کی اوٹ نیند میں گلگوں گگن پڑے
اک پل بھی کوئے دل میں نہ ٹھہراؤ رہ نورد
اب جس کے نقش پا میں چمن در چمن پڑے
اک جست اس طرف بھی غزال زمانہ رقص
رہ تیری دیکھتے ہیں خطا و ختن پڑے
جب انجمن توجہ صد گفتگو میں ہو
میری طرف بھی اک نگہ کم سخن پڑے
صحرائے زندگی میں جدھر بھی قدم اٹھے
رستے میں ایک آرزوؤں کا چمن پڑے
اس جلتی دھوپ میں یہ گھنے سایہ دار پیڑ
میں اپنی زندگی انہیں دے دوں جو بن پڑے
اے شاطر ازل ترے ہاتھوں کو چوم لوں
قریے میں میرے نام جو دیوانہ پن پڑے
اے صبح دیر خیز انہیں آواز دے جو ہے
اک شام زود خواب کے سکھ میں مگن پڑے
امجدؔ طریق مے میں ہے یہ احتیاط شرط
اک داغ بھی کہیں نہ سر پیرہن پڑے
غزل
جب اک چراغ راہ گزر کی کرن پڑے
مجید امجد