کیا روپ دوستی کا کیا رنگ دشمنی کا
کوئی نہیں جہاں میں کوئی نہیں کسی کا
اک تنکا آشیانہ اک راگنی اثاثہ
اک موسم بہاراں مہمان دو گھڑی کا
آخر کوئی کنارا اس سیل بے کراں کا
آخر کوئی مداوا اس درد زندگی کا
میری سیاہ شب نے اک عمر آرزو کی
لرزے کبھی افق پر تاگا سا روشنی کا
شاید ادھر سے گزرے پھر بھی ترا سفینہ
بیٹھا ہوا ہوں ساحل پر نے بہ لب کبھی کا
اس التفات پر ہوں لاکھ التفات قرباں
مجھ سے کبھی نہ پھیرا رخ تو نے بے رخی کا
اب میری زندگی میں آنسو ہیں اور نہ آہیں
لیکن یہ ایک میٹھا میٹھا سا روگ جی کا
او مسکراتے تارو او کھلکھلاتے پھولو
کوئی علاج میری آشفتہ خاطری کا
غزل
کیا روپ دوستی کا کیا رنگ دشمنی کا
مجید امجد