EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہم نے لالے کی طرح اس دور میں
آنکھ کھولی تھی کہ دیکھا دل کا خوں

میکش اکبرآبادی




کچھ اس طرح تری الفت میں کاٹ دی میں نے
گناہ گار ہوا اور نہ پاکباز رہا

میکش اکبرآبادی




مرے فسوں نے دکھائی ہے تیرے رخ کی سحر
مرے جنوں نے بنائی ہے تیرے زلف کی شام

میکش اکبرآبادی




نہیں ہے دل کا سکوں قسمت تمنا میں
تمہیں بھی دل کی تمنا بنا کے دیکھ لیا

میکش اکبرآبادی




نزع تک دل اس کو دہرایا کیا
اک تبسم میں وہ کیا کچھ کہہ گئے

میکش اکبرآبادی




پہنچ ہی جائے گا یہ ہاتھ تیری زلفوں تک
یوں ہی جنوں کا اگر سلسلہ دراز رہا

میکش اکبرآبادی




سب کچھ ہے اور کچھ نہیں اے داد خواہ عشق
وہ دیکھ کر نہ دیکھنا نیچی نگاہ سے

میکش اکبرآبادی