جانے کیسی روشنی تھی کر گئی اندھا مجھے
اس بھیانک تیرگی میں بھی بجھا رہتا ہوں میں
مہندر کمار ثانی
میں اپنی یاترا پر جا رہا ہوں
مجھے اب لوٹ کر آنا نہیں ہے
مہندر کمار ثانی
میں چاہتا ہوں کہ تیری طرف نہ دیکھوں میں
مری نظر کو مگر تو نے باندھ رکھا ہے
مہندر کمار ثانی
میں دن کو شب سے بھلا کیوں الگ کروں ثانی
یہ تیرگی بھی تو اک روشنی کا حصہ ہے
مہندر کمار ثانی
میں تنہائی کو اپنا ہم سفر کیا مان بیٹھا
مجھے لگتا ہے میرے ساتھ دنیا چل رہی ہے
مہندر کمار ثانی
روشنی میں لفظ کے تحلیل ہو جانے سے قبل
اک خلا پڑتا ہے جس میں گھومتا رہتا ہوں میں
مہندر کمار ثانی
ترا وجود ترے راستے میں حائل ہے
یہیں سے ہو کے مرا قافلہ گزرتا ہے
مہندر کمار ثانی

