وہی اداس سی آنکھیں اداس چہرہ ہے
یہ لگ رہا ہے کہ پہلے بھی تجھ کو دیکھا ہے
میں چاہتا ہوں کہ تیری طرف نہ دیکھوں میں
مری نظر کو مگر تو نے باندھ رکھا ہے
چھپا کے رکھتا ہوں میں خود کو ہر طرح لیکن
یہ آئنہ مجھے حیرت میں ڈال دیتا ہے
تمہاری بات پہ کس کو یقین آئے گا
کسی سے تم نہ یہ کہنا خدا کو دیکھا ہے
ہزاروں منزلیں سر کر چکا ہوں میں لیکن
یہ خود سے خود کا سفر تو بہت عجب سا ہے
ترا وجود ترے راستے میں حائل ہے
یہیں سے ہو کے مرا قافلہ گزرتا ہے
میں دن کو شب سے بھلا کیوں الگ کروں ثانی
یہ تیرگی بھی تو اک روشنی کا حصہ ہے
غزل
وہی اداس سی آنکھیں اداس چہرہ ہے
مہندر کمار ثانی