رات دن گردش میں ہیں لیکن پڑا رہتا ہوں میں
کام کیا میرا یہاں ہے سوچتا رہتا ہوں میں
باہر اندر کے جہانوں سے ملا مجھ کو فراغ
تیسری دنیا کے چکر کاٹتا رہتا ہوں میں
ایک بے خوفی مجھے لے آئی ساحل کے قریب
آ کے اب نزدیک ساحل کے ڈرا رہتا ہوں میں
جانے کیسی روشنی تھی کر گئی اندھا مجھے
اس بھیانک تیرگی میں بھی بجھا رہتا ہوں میں
کر دیا کس نے مرا آئینۂ دل گرد گرد
عکس ہوں کس کا ہوا سے پوچھتا رہتا ہوں میں
ایک جنگل سا اگا ہے میرے تن کے چاروں اور
اور اپنے من کے اندر زرد سا رہتا ہوں میں
ایک نقطے سے ابھرتی ہے یہ ساری کائنات
ایک نقطے پر سمٹتا پھیلتا رہتا ہوں میں
روشنی میں لفظ کے تحلیل ہو جانے سے قبل
اک خلا پڑتا ہے جس میں گھومتا رہتا ہوں میں
سانس کی لے پر تھرکتی ہے کوئی ازلی ترنگ
رنگ ثانیؔ دیکھ کر حیرت زدہ رہتا ہوں میں
غزل
رات دن گردش میں ہیں لیکن پڑا رہتا ہوں میں
مہندر کمار ثانی