نے امیروں میں نے وزیروں میں
عشق کے ہم تو ہیں فقیروں میں
کوئی آزاد ہو تو ہو یارو
ہم تو ہیں عشق کے اسیروں میں
بندۂ عشق حق ہے اپنے یہاں
تاج داروں میں تخت گیروں میں
فرقت یار کی بھری ہے بو
نالہ ہائے نے و نفیروں میں
زن دنیا مرید کس کی نہیں
ہم بھی اس قحبہ کے تھے پیروں میں
اب تو خاموش ہیں قفس میں کبھی
نغمہ سنجاں تھے ہم صفیروں میں
ہم کو تو واجب الوجود ملا
ہم کبیروں میں ہم صغیروں میں
کنج عزلت میں یار کو پایا
نے قلیلوں میں نے کثیروں میں
شکر حق کیجئے کہ ہے ماتمؔ
اپنے دل دار دل پذیروں میں
غزل
نے امیروں میں نے وزیروں میں
ماتم فضل محمد