EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

آساں تو نہیں اپنی ہستی سے گزر جانا
اترا جو سمندر میں دریا تو بہت رویا

خورشید رضوی




اب سے پہلے وہ مری ذات پہ طاری تو نہ تھا
دل میں رہتا تھا مگر خون میں جاری تو نہ تھا

خورشید رضوی




عکس نے میرے رلایا ہے مجھے
کوئی اپنا نظر آیا ہے مجھے

خورشید رضوی




بہت سے روگ دعا مانگنے سے جاتے ہیں
یہ بات خوگر رسم دوا سے کون کہے

خورشید رضوی




بس دریچے سے لگے بیٹھے رہے اہل سفر
سبزہ جلتا رہا اور یاد وطن آتی رہی

خورشید رضوی




بکھر گیا تو مجھے کوئی غم نہیں اس کا
کہ راز مجھ پہ کئی وا ہوئے بکھرتے ہوئے

خورشید رضوی




ہیں مری راہ کا پتھر مری آنکھوں کا حجاب
زخم باہر کے جو اندر نہیں جانے دیتے

خورشید رضوی