بڑا عجیب سماں آج رات خواب میں تھا
میں ان کے پاس تھا سیارہ آفتاب میں تھا
صدف صدف جسے ڈھونڈ آئے ڈھونڈنے والے
خدا کی شان وہ موتی کسی حباب میں تھا
ادھر سے دست و نگاہ و زباں تمام سوال
ادھر سے ایک سکوت گراں جواب میں تھا
ہوا میں ایک ادھورا فسانہ کہتا ہوا
یہ چاک چاک ورق جانے کس کتاب میں تھا
تمہاری بزم سے تنہا نہیں اٹھا خورشیدؔ
ہجوم درد کا اک قافلہ رکاب میں تھا
غزل
بڑا عجیب سماں آج رات خواب میں تھا
خورشید رضوی