EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

خودی کی دولت عظمیٰ خدا نے مجھ کو بخشی ہے
قلندر ہوں میں شاہوں کی گدائی کر نہیں سکتا

افضل الہ آبادی




میں چاہتا تھا کہ اس کو گلاب پیش کروں
وہ خود گلاب تھا اس کو گلاب کیا دیتا

افضل الہ آبادی




میں اضطراب کے عالم میں رقص کرتا رہا
کبھی غبار کی صورت کبھی دھواں بن کر

افضل الہ آبادی




تیری نسبت ملی مجھے جب سے
میں کوئی آرزو نہیں کرتا

افضل الہ آبادی




تو جگنو ہے فقط راتوں کے دامن میں بسیرا کر
میں سورج ہوں تو مجھ سے آشنائی کر نہیں سکتا

افضل الہ آبادی




وہ جس کی راہ میں میں نے دیئے جلائے تھے
گیا وہ شخص مجھے چھوڑ کر اندھیرے میں

افضل الہ آبادی




وہ جس نے دیکھا نہیں عشق کا کبھی مکتب
میں اس کے ہاتھ میں دل کی کتاب کیا دیتا

افضل الہ آبادی