غموں کی دھوپ میں ملتے ہیں سائباں بن کر
زمیں پہ رہتے ہیں کچھ لوگ آسماں بن کر
اڑے ہیں جو ترے قدموں سے خاک کے ذرے
چمک رہے ہیں فلک پر وہ کہکشاں بن کر
جنہیں نصیب ہوئی ہے ترے بدن کی نسیم
مہک رہے ہیں زمیں پر وہ گلستاں بن کر
میں اضطراب کے عالم میں رقص کرتا رہا
کبھی غبار کی صورت کبھی دھواں بن کر
مری صداؤں کو اب تو پناہ مل جائے
تجھے پکار رہا ہوں تری زباں بن کر
میں اس زمین کی وسعت پہ سیر کرتا ہوں
فلک کے چاند ستاروں کا رازداں بن کر
مسرتوں کی فضا میں سدا وہ رہتے ہیں
جو غم کے ماروں سے ملتے ہیں مہرباں بن کر
انہیں کو شان چمن یہ زمانہ کہتا ہے
چمن کو لوٹ رہے ہیں جو باغباں بن کر
میں حرف حرف جسے پڑھ چکا ہوں اے افضلؔ
ورق ورق پہ وہ بکھرا ہے داستاں بن کر
غزل
غموں کی دھوپ میں ملتے ہیں سائباں بن کر
افضل الہ آبادی