بلندی سے کبھی وہ آشنائی کر نہیں سکتا
جو تیرے آستانے کی گدائی کر نہیں سکتا
زباں رکھتے ہوئے بھی لب کشائی کر نہیں سکتا
کوئی قطرہ سمندر سے لڑائی کر نہیں سکتا
تو جگنو ہے فقط راتوں کے دامن میں بسیرا کر
میں سورج ہوں تو مجھ سے آشنائی کر نہیں سکتا
خودی کی دولت عظمیٰ خدا نے مجھ کو بخشی ہے
قلندر ہوں میں شاہوں کی گدائی کر نہیں سکتا
صفت فرعون کی تجھ میں ہے میں موسیٰ کا حامی ہوں
کبھی تسلیم میں تیری خدائی کر نہیں سکتا
جو زنداں میں اذیت پر اذیت مجھ کو دیتا ہے
میں اس ظالم سے امید رہائی کر نہیں سکتا
جو کمتر ہے بڑائی اپنی اپنے منہ سے کرتا ہے
مگر افضلؔ کبھی اپنی بڑائی کر نہیں سکتا
غزل
بلندی سے کبھی وہ آشنائی کر نہیں سکتا
افضل الہ آبادی